مختصر تعارف

ہم ذیل کی سطروں میں ناظرین کو حضرت اقدس مفتی احمد خانپوری صاحب [دامت برکاتہم] کے حالات زندگی کے چند اہم گوشوں سے متعارف کرانا چاہتے ہیں. یہ مختصر تعارف ہے. تفصیل محمود الفتاویٰ کے مقدمہ میں موجود ہے


ولادت:

آپ کی پیدائش ۲۷/شوال المکرم ۱۳۶۵؁ھ مطابق ۲۴ /ستمبر ۱۹۴۶؁ء بروز ِ منگل رات کو دس بجےخانپور، ضلع بھروچ میں ہوئی۔


ابتدائی تعلیم:

مفتی صاحب نے ابتدائی دینی وعصری تعلیم وطن ہی میں حاصل کی: تختی، قاعدہ - حافظ ابراہیم قاضی صاحب سے اورپارۂ عم و کچھ ناظرہ - حافظ حسن شاہ خانپوری سے بقیہ ناظرہ اوراردو کی ابتدائی کتابیں - مولانا محمد امین اسماعیل قاضی ٹنکاروی فاضل دار العلوم اشرفیہ راندیر سورت سے حاصل کی ۔قرآن پاک کے ختم کی خوشی وشکرانہ میں آپ کے والد صاحب نے گھر میں باقاعدہ کھیر وحلوہ پکواکر اپنی مسرت کا اظہار فرمایا۔


آپ کے والد صاحب نے یہ طے کررکھاتھا کہ آپ کو اعلیٰ دینی تعلیم دلانی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب اسکول کی ساتویں کلاس تک کی تعلیم مکمل ہوئی، اور آپ کے بڑے بھائی جناب ابراہیم صاحب نے آپ کوعصری تعلیم کے لئے اپنے ساتھ احمد آباد لے جانا چاہا،تو مفتی صاحب کے والد ماجد نے فرمایا ’’میں نے احمد کو اپنی آخرت کے لئے رکھا ہے اس لئے نہیں بھیج سکتا‘‘۔


مفتی صاحب بارہ سال کی عمر میں ۱۹۵۸؁ء میں دار العلوم اشرفیہ راندیر میں داخل ہوئے ،اور آپ نے انتہائی شوق ومحنت اور نہایت یکسوئی و سنجیدگی کے ساتھ اپنی علمی پیاس بجھائی ، اپنے زمانہ کے ماہرین فن اساتذہ و علماء سے آپ نے پڑھا اور ہمیشہ امتحانات میں اعلی نمبرات سے کامیاب ہوتے رہے ۔اساتذہ کی خدمت و اطاعت نیز خدا داد ذکاوت و فطانت کی بدولت آپ نے اپنے بڑوں کا دل جیت لیا اور سب کے منظور نظر بن گئے ۔


نومبر ۱۹۶۶؁ءمیں آپ نے اپنا درس نظامی کا نصاب مکمل کیا ، لیکن ابھی آپ کو سیرابی نہیں ہوئی اس لئے آپ نے مزید تعلیم کے لئے ندوہ جاکرعربی ادب پڑھ کر اپنے شوق کی تسکین کرنی چاہی اور اس کےداخلہ کے لئے درخواست بھی بھیجی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ، ندوہ سے درجہ ٔ مطلوبہ میں طلبہ کی تعداد مکمل نہ ہونے کی وجہ سے معذرت کا جواب آیا اور آپ نے دیوبند کی طرف رخ کیا.


دار العلوم دیوبند میں:

شوال ۱۳۶۶؁ھ کے اوائل میں دیوبند پہنچے وہاں داخلہ کی کارروائی کو مکمل کیا اور تخصص فی الفنون کے درجہ میں شریک ہوئے ،قیامِ دیوبند کے زمانہ میں وقتاًفوقتاًاپنے گجراتی رفقاء کے ہمراہ آپ فقیہ الأمت حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی صاحب ؒ (متوفی ۱۴۱۷؁ھ) کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتے رہتے تھے اور یہیں سے گویا بنیاد پڑی حضرت فقیہ الامت کے ساتھ گہری وابستگی کی ۔


علم کی تشنگی بڑھتی رہی اور فنون کا سال مکمل کرکے آپ نے مزید تعلیم کے لئے درجۂ افتاء میں داخلہ لیا ، چونکہ حضرت فقیہ الأمت صدر مفتی تھے ،حضرت سے تعلق بتدریج بڑھتا گیا ، دن رات کا حضرت کا ساتھ ملا ، حضرت کی خدمت کا موقع ملا، فقیہ الأمت ؒ کی معیت میں اسفار کی بھی سعادت حاصل ہوتی رہی، جب فقیہ الأمت سہارن پور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نور اللہ مرقدہ کے ہا ں تشریف لے جاتے تو ایک جمعہ کے ناغہ سے مفتی صاحب کو بھی ساتھ لے جاتے، اس طرح حضرت شیخ کی شفقت و محبت بھی ملی یہاں تک کہ ایک دن مفتی صاحب نے حضرت شیخ الحدیث ؒ سے عرض کرکے آپ کو بیعت کرا دیا، اور چند ہی دن بعد ذکر بھی شروع کروایا۔ حضرت شیخ الحدیث ؒ نے خود فقیہ الأمت ؒ سے مفتی صاحب کے متعلق فرمایا کہ ’’یہ تو آپ کا ہی ہے آپ اس پر توجہ فرمائیں‘‘ جب ذکر ِجہری شروع کروایا تھا تو مفتی صاحب کو آٹھ روز کے لئے سہارن پور قیام کا حکم فرمایا، اس سال اور اس کے بعد ۱۳۹۰؁ھ تا ۱۳۹۹؁ھ کے رمضان المبارک حضرت شیخؒ کی خدمت میں گزارنے کی سعادت حاصل ہوئی۔


جامعہ ڈابھیل میں خدمات:

مفتی صاحب کی تدریسی زندگی کا باقاعدہ آغاز شوال ۱۳۸۸؁ھ مطابق ۱۹۶۹؁ء سے ہوتا ہے،تب سے اب تک جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل سے وابستہ ہیں ،اور اس عرصہ میں آپ نے عربی اول سے لے کر دورۂ حدیث تک متعدد فنون کی کتابیں بار بار پڑھائیں ،جس میں مشکوۃ شریف ، ابن ماجہ شریف ،ابوداؤدشریف، ترمذی شریف ،بخاری شریف کی جلد ثانی شامل ہے ،ذی الحجہ۱۴۰۴؁ھ مطابق ۲۴؍ستمبر ۱۹۸۴؁ء میں بخاری شریف جلد ثانی کا سبق آپ کے ذمہ کیا گیا ،اور۱۴۰۶؁ھ میں آپ جامعہ کے صدر مفتی بنائے گئے اس وقت سے تا دمِ تحریر تقریباً [۲۵؍سال]سے آپ یہ خدمات انجام دے رہے ہیں، آپ کے درس کو مقبولیت حاصل ہوئی، اس بناء پر بے شمار تشنگانِ علم آپ کے علوم سے فیض یاب و بہرہ ور ہوئے۔اور ہورہے ہیں ،آپ کے صرف ان تلامذہ کی تعداد جنہیں آپ سے بلا واسطہ استفادہ کا موقع ملا ہزاروں تک پہونچتی ہے ۔


اس وقت ہند و بیرونِ ہند، سعودیہ، ساؤتھ افریقہ،بوٹس وانا، ملاوی،بحرین،خلیجی ممالک، موریشیش، ٹرینیداد،زامبیا، پاکستان،محلدیپ، کینیڈا، چیلی، سُری نام،پنامہ، امریکہ،ٹرٹولہ (وسط امریکہ میں واقع ہے)باربادوس، ریونین، نیوز لینڈ، برطانیہ وغیرہ ممالک میں آپ کے تلامذہ، علماء ومفتیانِ کرام کی ایک بہت بڑی تعداد دینی، ملی،سماجی خدمات کا اہم ترین فریضہ انجام دے رہی ہے۔


اس کے علاوہ رمضان المبارک میں خانقاہِ محمودیہ ڈابھیل میں آپ بے شمار طالبین و سالکین کو سیراب فرماتے ہیں ،حضرت کے ساتھ اصلاحی تعلق قائم کرنے والوں میں عوام و خواص دونوں طرح کے لوگ ہیں ، ملک و بیرون ملک آپ کا روحانی فیض جاری ہے ، اس سلسلہ میں اسفار بھی ہوتے رہتے ہیں ، حضرت کےباطنی تلامذہ کی تعدادکا اندازہ لگانا بڑا مشکل ہے۔


دعا ہے اللہ تعالیٰ اس سلسلہ کو سر سبز و شاداب رکھے، نظرِبد سے حفاظت ہو ۔ حاسدین کے شرور سے اور آفات بلیّات مکارہ سے محفوظ رکھے۔

حضرت مفتی احمد خانپوری کے بارے میں